نعت
گزرے جن راستوں سے حبیب خدا، جو مجھے جس خاک نے مصطفیٰ کےقدم
کاش زندگی میں پہنچتا کبھی، میں وہاں اپنے سر کو بنا کے قدم
ان پہ روشن ہے سب میرا حال زبوں، جب یہ سچ ہے تو پھر ان سے میں کیا کہوں
سرور دیں کی توہین کے خوف سے، کانپتے ہیں میری ہر دعا کے قدم
ان سے کہہ کر تصور میں روداد غم، میں ہوا طالب چشم لطف و کرم
یاد آئیں جب اپنی خطائیں مجھے، ڈگمگانے لگے التجا کے قدم
حق کو جب ان سے ملنے کی خواہش ہوئی، کتنی پرنور وہ شب تھی معراج کی
عرش کو برتری کی سند مل گئی، چومے جب اس نے خیرالوریٰ کے قدم
آگئی رحمت ایزدی جوش میں، لے لیا بڑھ کے آقا کو آغوش میں
اپنی منزل پہ جب خود بخود رک گئے، ساکن سدرۃالمنتہیٰ کے قدم
اے تمنائے دیدار محبوب رب، باادب باادب باادب
ذات اقدس کی عظمت کے احساس سے، تھرتھراتے ہیں ہرم مدعا کے قدم
ہر قدم سختیوں پر ہوئیں سختیاں، ہر نفس کے امتحاں پر ہوئے امتحاں
ڈگمگائے نہ راہ عمل میں کبھی بھی، عاشقان حبیب خدا کے قدم
خود بلالیں اگر مجھ کو شاہ اممﷺ، اے نسیمؔ ان کا ہوگا یہ مجھ پہ کرم
ورنہ در تک رسائی سے معذور ہیں آج تک میری فکر رسا کے قدم
نسیمؔ مینائ
شاہجہانپور ®©